میانوالی/لاہور (نمائندہ خصوصی/نیوز ڈیسک)مرکزی جیل میانوالی سے منشیات کے استعمال پر مبنی ایک ہولناک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے، جس نے نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ پنجاب بھر میں جیل اصلاحات اور قیدیوں کی بحالی کے نظام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ جیل اسپتال کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 4223 قیدیوں کا منشیات کے ٹیسٹ میں نتیجہ مثبت آیا، جن میں 273 زیرِ سماعت (UT) اور 3950 سزا یافتہ (CT) قیدی شامل ہیں۔اس طبی اسکریننگ میں انکشاف ہوا ہے جیل میں کئی قسم کی خطرناک منشیات موجود ہے جس میں چرس،ہیروین،کوکین بھی ہیں،معلوم ہوا ہے کہ نیند والی گولیوں کا استعمال تو عام ہے۔رپورٹ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ منشیات کے عادی زیادہ تر وہ قیدی ہیں جو سزا یافتہ ہیں اور جن کا بیرونی دنیا سے رابطہ نہیں ہے اس کا مطلب ہے کہ منشیات کی جیل کے اندر سپلائی کا نیٹ ورک موجود ہے۔یہ سنگین مسئلہ صرف میانوالی تک محدود نہیں بلکہ پنجاب کی تمام 43 جیلوں میں منشیات کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ 2022 سے 2025 کے درمیان کی گئی رپورٹس کے مطابق:

29,916 قیدیوں میں سے 47 فیصد نشہ استعمال کرنے والے نکلے۔

2023 کے جائزے میں 42 فیصد قیدی منشیات سے متعلق مقدمات میں ملوث پائے گئے۔

جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش سے 173 فیصد زائد بھیڑ ہے، جس سے منشیات کی ترسیل آسان ہو گئی ہے۔واضح رہے کہ
مارچ 2025 میں پنجاب پولیس نے “یُدھ نشیئن دے وِروُدھ” مہم شروع کی، جس میں:

14,734 افراد گرفتار

8,344 مقدمات درج

500 کروڑ روپے کی جیل اصلاحات کی منظوری دی گئی

ہر جیل میں ڈی-ایڈی سنٹرز، GPS ٹریکنگ، اور نفسیاتی کونسلنگ کی سہولت فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا۔
انسانی حقوق کے اداروں نے اس صورت حال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے سفارش کی ہے کہ ہر جیل میں منشیات اسکریننگ کو لازمی قرار دیا جائے۔قیدیوں کی داخلے پر طبی و نفسیاتی جانچ ضروری ہو۔جیلوں میں ڈی-ایڈی سنٹرز، ری ہیبیلیٹیشن پروگرامز اور نفسیاتی علاج مہیا کیا جائے۔ شفاف نگرانی کا نظام نافذ کیا جائے۔
میانوالی جیل کی رپورٹ ایک آئینہ ہے، جس میں پنجاب کے جیل نظام کا چہرہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم سزا نہیں، شفا کی طرف قدم بڑھائیں — ورنہ جیلیں صرف بند دروازے نہیں، بلکہ منشیات کے نئے اڈے بن جائیں گی

Leave a Comment