29,916 قیدیوں میں سے 47 فیصد نشہ استعمال کرنے والے نکلے۔
2023 کے جائزے میں 42 فیصد قیدی منشیات سے متعلق مقدمات میں ملوث پائے گئے۔
جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش سے 173 فیصد زائد بھیڑ ہے، جس سے منشیات کی ترسیل آسان ہو گئی ہے۔واضح رہے کہ
مارچ 2025 میں پنجاب پولیس نے “یُدھ نشیئن دے وِروُدھ” مہم شروع کی، جس میں:
14,734 افراد گرفتار
8,344 مقدمات درج
500 کروڑ روپے کی جیل اصلاحات کی منظوری دی گئی
ہر جیل میں ڈی-ایڈی سنٹرز، GPS ٹریکنگ، اور نفسیاتی کونسلنگ کی سہولت فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا۔
انسانی حقوق کے اداروں نے اس صورت حال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے سفارش کی ہے کہ ہر جیل میں منشیات اسکریننگ کو لازمی قرار دیا جائے۔قیدیوں کی داخلے پر طبی و نفسیاتی جانچ ضروری ہو۔جیلوں میں ڈی-ایڈی سنٹرز، ری ہیبیلیٹیشن پروگرامز اور نفسیاتی علاج مہیا کیا جائے۔ شفاف نگرانی کا نظام نافذ کیا جائے۔
میانوالی جیل کی رپورٹ ایک آئینہ ہے، جس میں پنجاب کے جیل نظام کا چہرہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم سزا نہیں، شفا کی طرف قدم بڑھائیں — ورنہ جیلیں صرف بند دروازے نہیں، بلکہ منشیات کے نئے اڈے بن جائیں گی