
لاہور (2 جولائی 2025) — پنجاب کی حکومتی سطح پر تیار کردہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق، صوبائی جیلوں میں قیدیوں کا تقریباً 70 فیصد حصہ منشیات میں ملوث ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نوجوانوں میں افیون، ہروئن، اور موڈ اسٹیبلائزنگ ادویات کا استعمال خطرناک سطح پر پہنچ چکا ہے، جس کی وجہ سماجی و معاشی دباؤ اور بلیک مارکیٹ کا بے کنار فروغ ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں، گھریلو سیٹنگز اور ماحولیاتی عدم استحکام نے نوجوانوں کو زیادہ حساس اور متاثر پذیر بنا دیا ہے۔ کئی قیدیوں نے اعتراف کیا کہ وہ نشے کے عادی نہیں تھے لیکن معاشی مشکلات یا خاندانی بےچینی کے باعث یہ لگی۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ حکومت فوری طور پر منشیات روک تھام اور علاجی مراکز قائم کرے، تعلیمی نصاب میں آگاہی کورسس شامل کرے، اور پولیس کی کارروائیوں کو مؤثر بنائے۔
ماہرین صحت نے کہا کہ “یہ مسئلہ صرف انفرادی نہیں بلکہ قومی سطح پر سماجی بگاڑ، صحت کا بحران اور غیر محفوظ معاشرے سے بھی جڑا ہے”۔ نشے کے اس عالمگیر رجحان سے نمٹنے کے لیے تعلیمی اداروں، والدین اور حکومت کو مشترکہ طور پر شعور بیداری مہمات شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
سماجی کارکنوں نے مطالبہ کیا ہے کہ کم سے کم 50 علاجی مراکز بنائے جائیں، انسداد منشیات کی خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں، اور نوجوانوں کیلئے ریکسریشنل سرگرمیوں اور اسپورٹس پروگرامز پر سرمایہ کاری کی جائے تاکہ انہیں مثبت راہوں میں مصروف رکھا جا سکے۔