
اسلام آباد (2 جولائی 2025) — قومی اسمبلی میں 2025‑26 مالی سال کا مکمل بجٹ منظور کر لیا گیا ہے، جس میں حکومت نے بڑے مالی خسارے کو پورا کرنے کے لیے عوام پر بھاری محصولات اور ٹیکسز عائد کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا۔
اس مالی سال کے دوران ٹیکس ریونیو کو بڑھانے کے لیے انکم ٹیکس اور جی ایس ٹی میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے، جس کا براہِ راست اثر شہریوں اور چھوٹے کاروباریوں پر پڑے گا۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق، بجلی اور گیس پر سبسڈی کا خاتمہ حکومت کی موجودہ معاشی پالیسوں کے باعث عمل میں آیا ہے، اور اس قدم کا مقصد توانائی سیکٹر کے خسارے کم کرنا ہے، لیکن عوام میں شدید ناراضگی پائی جا رہی ہے۔ تنخواہ دار طبقے، خاص طور پر سرکاری ملازمین، پر نئی ٹیکس شرحیں لاگو کی گئی ہیں، اور ان پر بھی صحت بیمہ اور ریٹائرمنٹ فنڈ کی مد میں اضافی چارجز لگائے گئے ہیں۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ اقدامات عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط کے تحت قرضے حاصل کرنے کے لیے ضروری قرار دیے گئے ہیں، لیکن مجموعی طور پر یہ عوام کی خریداری طاقت کو متاثر کریں گے۔
زر مبادلہ کے ذخائر اور بیرونی قرضوں کی عدم توازن صورتحال کو قابو کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں، اور بجٹ کی انٹرنیشنل سطح پر مثبت پہلو بھی دیکھنے والوں کو نظر آ رہے ہیں۔
مجموعی طور پر، حکومتی موقف یہ ہے کہ یہ اقدامات وقتی طور پر عوامی مشکلات میں اضافہ کریں گے تاہم طویل مدت میں ملکی معیشت مضبوط ہوگی اور مستقبل کے مالی استحکام کی راہ ہموار ہوگی